واٹس ایپ کے موجد جین کوم نے واٹس ایپ کیوں بنائی؟ پڑھئے ان کی دردناک کہانی
واٹس ایپ کے موجد’ جین کوم’ نے واٹس ایپ کیوں بنائی؟ پڑھئے
ان کی دردناک کہانی
گھر میں بجلی تھی نہ گیس،یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پر مجبور ہو جاتے
تھے۔
میں یہودیوں پر حملے بھی شروع ہو گئے تو والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن
والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا،
میں حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کیلئے فوڈ سٹیمپس دیتی
ہے۔یہ سٹیمپس دراصل خیرات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ زندگی بچانے کے لیے خیرات
لینے پر مجبور تھے۔
مہنگی ہونے لگی۔ فوڈ سٹیمپس سے گزارہ مشکل
ہو گیا تو جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی اُسے ایک گروسری اسٹور میں خاکروب کی
ملازمت ملی۔
خواہش تھی۔
مبتلا ہو گیا۔
"Yahoo ” میں بھرتی ہوا۔
میں فیسبک آئی اور 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی۔
کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا اور اسے نوکری نہ دی۔
فون خرید لیا۔
کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو۔
بھجوائی جا سکیں اور جسے ہیک بھی نہ کیا جا سکے۔
ساتھ شیئر کیا۔ یہ دونوں اسی آئیڈیا پر کام میں جت گئے۔ یہاں تک کہ دو سال میں ایک
طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
کو جوڑ دیا۔
چلے جائیں۔
اور آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
جس کہ ٹوٹل ڈاؤن لوڈز کی تعداد 5ہزار ملین سے بڑھ گئی ہے۔
پر بھی بات نہ کر پانے کا جو دکھ تھا، اس کے احساس کی وجہ سے اس نے دوسروں کو قریب
لانے والی یہ ایپ ایجاد کی۔
کمپنیوں نے اس کی خریداری کیلئے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
میں شامل ہو گئی۔
نکل گئی، اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر کہا__ "یہ وہ ادارہ تھا
جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا” ہنستے ہنستے اس نے فیس
بک کو ‘ہاں’ کر دی۔
ارب ڈالر میں سودا ہو گیا۔
ذخائر سے لگا لیجیے۔
پاکستان 70 برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا، جب کہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب
ڈالر میں فروخت کی۔
کہ میں فوڈ سٹیمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر معاہدے پر دستخط کروں
گا۔
دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن فیس بک کو اس کی ضد ماننا پڑی، تاریخ
طے ہوئی، فیس بک والے فلاحی سینٹر پہنچے۔
رو رہا تھا۔
کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں فوڈ سٹیمپس کا انتظار
کرتے تھے۔
پیاسے یہاں بیٹھے رہے۔
کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی۔
لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے، تم کام کیوں
نہیں کرتے”؟
لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے، وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا۔
کامیابی اسی ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا۔
بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کئے۔
خاتون آج بھی وہاں موجود تھی۔
کر کہا_ "آئی گاٹ اے جاب” اور سینٹر سے باہر نکل گیا۔
ہے۔
بالآخر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔
I was weeping after i read this story